ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی
چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔
کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی
میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
کو کنٹرول کرتی ہے۔
لیکن مذہب کے برعکس
کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔
ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600
میل کا سفر طے کر کے
جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار
چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا
پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان
پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائ) خان کو کیمیا
گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر
کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی
مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی
بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا
ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی
سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا
ہے مشہور برطانوی ماہر معاشیاتجان کینز
نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت
نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے
ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقھ
اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ
امیر ہو جاتے ہیں1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد
تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے
رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے
بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک
ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس
کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے
اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم
چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور
اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنےدو بنجمن ڈی
اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے
عوام بینکاری اورمالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے
کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل
صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی روتھسچائلڈ نے 1838 میں
کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔
پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔
0 Comments
messags