سیرت النبی اسلام کا نیا دور 2

 سنہ 6 ہجری 
اس سال غزوہٴ بنی لحیان، غزوة الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقامِ حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعتِ رضوان ہوئی، اسی سال آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔
؁  ۷  ھ:
اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا، مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوہٴ وادی القریٰ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی معیت میں عمرة القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔
؁  ۸  ھ:
اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرِ لشکر مقرر کیا گیا، دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا، اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، قریش نے ہتھیار ڈال دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عام کا اعلان فرمایا، کعبة اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، اِرد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔
مکہ کی فتح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمنوں سے سلوک
کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (۱۳) سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ستم ڈھائے، انھیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اُنھیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا حتیٰ کہ انھیں شہید تک کردِیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈالی گئی؛ یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وَہاں بھی اُن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگِ بدر، جنگِ اُحد اور جنگِ احزاب کی نوبت آئی۔
لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں دَاخل ہوتے ہیں؛ لیکن دُنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیں؛بلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سرِ مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبُّ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اُس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریشِ مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔
آج اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور دُنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اَپنے دُشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیں؛ لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمة للعٰلمین ہیں، اخلاق کے اُونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اَعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔(القلم:۲)
ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:
 ”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․(یوسف:۹۲)
ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔
یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْھَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!
 آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔
اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگے اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
غزوہٴ حنین
فتحِ مکہ کے بعد غزوہٴ حنین ہوا، قبیلہٴ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے؛ مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ واپس ہوئے، جنگِ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہٴ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی واپس کردیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔
؁  ۹  ھ:
اس سال غزوہٴ تبوک ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رُومیوں کی تیارِی کی اِطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقامِ تبوک پہنچ گئے۔ لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، اَئیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ”اَمیرِ حج“ بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔
؁  ۱۰ ھ:
اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک دستہ بنی مذحج کے مقابلہ میں بھیجا، ان کے بیس آدمی مارے گئے باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج ہے۔ جسے حجة الوداع، حجة البلاغ، حجة الکمال، حجة التمام، حجة الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اُصولوں کی تعلیم فرمائی

Post a Comment

0 Comments