بنیادی اُصولوں کی تعلیم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی حاکمِ وقت اور قاضی کے لیے نمونہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔
آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اُصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی، آپ ہی کا فرمان ہے:
”بخدا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“
اور آپ ہی کا فرمان ہے:
”اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے؛ لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت
بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوہٴ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے:
أنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
أنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
”میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا سپوت ہوں۔“
ایک بار اہلِ مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دُشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے؛ تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ ہی کا ارشاد ہے:
”ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے“۔
سنتِ مشورہ
آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے جیسا کہ غزوہٴ بدر اور غزوہٴ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور عدل و اِنصاف
اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و اِنصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انھیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول اِنسان کو ہرگر قتل نہ کیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و تحمل
صبر و تحمل میں آپ سب کے امام ہیں، ایک اَعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردنِ مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِستقامت کے پہاڑ
حق پر صبر و اِستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے، آپ کے مخالفین نے آپ کو مال و دولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی؛ تاکہ آپ دعوتِ حق کو ترک کردیں؛ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرہ برابر متأثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہلِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گے، آپ نے فرمایا:
”قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں؛ تاکہ میں اپنی اس دعوتِ حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا؛ جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و کرم
عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، فتحِمکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، خود آپ کا ارشاد ہے:
”جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت
جود و سخا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے ہیں، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔“
اُونچے اخلاق
اخلاق میں آپ اتنے اُونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا: ”اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں“۔
بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست
اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اُمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے؟ ایک باپ کیسا ہو؟ اور ایک دوست کیسا ہو؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب معلم اور مربی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپ کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے؛ اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اُسوہٴ حسنہ ہیں۔
0 Comments
messags