ایک ایسا فن ہے جسے قومیں۔ اور فرقے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں جس کے حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کیا جاتا ہے اسمیں معلومات حاصل کرنے کے لیے عوام و جہلاء تک پیش قدمی کرتے ہیں اسکے لیے بادشاہ اور نواب بھی اپنے پورے شوق کا اظہار کرتے ہیں اور اسے سمجھنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے میں علماء و جہلاء یکساں ہیں کیونکہ تاریخ بظاہر لڑائیوں اور حکومت کی خبروں سے اور پہلی صدیوں کے گزرے ہوۓ واقعات سے آگے نہی بڑھتی اور اسمیں اقوال کی کثرت اور مثالوں کی فروانی ہے جب عظیم اجتماع ہوتا ہے تو مجالس اجتماع تاریخ ہی سے سجائ جاتی ہیں اور تاریخ ہی ہمارے سامنے دنیا کا حال پیش کرتی ہے کہ کس طرح لوگوں کو نازک ادوار سے گزرنا پڑا۔ ان پر کیسے کیسے نازک اوقات آۓ اور حکومتوں کے دامن و میدان کس کس طرح پھیلے اور سمٹے۔ اور انہوں نے کیسی کیسی محنت سے دنیا بسائ حتیٰ کہ موت کا وقت آگیا اور انہیں دنیا سے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑا۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو تاریخ میں تحقیقی نظریات بھی ہیں اور کائنات کے گہری وجہیں و اصول بھی ہیں اور اسی طرح واقعات کی کیفیات و اسباب کا گہرا علم بھی ہے اسی لیے تاریخ کی فلسفہ کی دنیا میں گہری جڑیں ہیں اور وہ اس قابل ہے کہ علوم حکمت میں شمار کی جاۓ
مؤرخین پر تنقیدی نگاہ
بڑے بڑے مؤرخین اسلام نے مفصل تاریخیں لکھی اور دنیا کے واقعات پورے پورے قلم بند کیے اور کتابوں میں محفوظ کیے۔ ۔لیکن افسوس،،بن بلاۓ ہوے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جہوٹے اور من گھڑت افسانے ملا دیے ۔اوہام و خیالات بہر دیے اور کمزور منقولہ اور خود تراشیدہ روایات کے خوبصورت حاشیے چڑھادیے پھر بعد والے انہی کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے لکیر کے فقیر بن گۓ اور جو کچھ واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم و کاست ہم تک پہنچا دیئے۔ ۔انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہی کیا اور نہ انکی رعایت پیش نظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑتی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ انکا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق براۓ نام بھی نہی کی گئ اکثر واقعات میں تنقیح کی دھار مڑھی ہوئ ہے اور خبروں میں اغلاط و اوہام۔ خبروں کے ہم نسب ہمدم اور ہم قدم ہیں تقلید انسانی طبیعتوں میں پختہ ہو گئ ہے اور اپنی جڑیں پھیلا چکی ہے فنون میں بن بلائے مہمانوں کا زور شور ہے اور لوگوں کے معدوں کے لیے جہالت کی گھاس ناساز اور نا قابل ہضم نہی رہی ہے۔ یعنی نااہل علوم پر قابض ہیں اور عام طور پر جہالت کا زور ہے تاہم حق کا غلبہ ایسا نہی کہ اسکا مقابلہ کیا جاسکے اور باطل کا شیطان ایک سطحی نگاہ کے شہاب ثاقب سے ہلاک کر دیا جاتا ہے ناقل صرف نقل کر کے لکھتا ہے بے شک صحیح ہو یا غلط۔ اور بصیرت غوطہ لگا نے سے کھوٹے کھرے کو پرکھ لیتی ہے۔
اور علم بصیرت دل کے صفحات کو صاف و شفاف اور روشن بنا دیتا ہے
0 Comments
messags