تواریخ میں مؤرخین کا انداز

 

پھر ان حضرات کی اکثر تواریخ میں عوام کی طرز و روش ہے کیونکہ شروع اسلام میں بنی امیہ اور بنو عباس کی حکومتوں میں دنیا میں جو حالات پیدا ہوئے یہ تاریخیں عام طور پر ان سب کو شامل کیے ہوئے ہیں اور ان مقاصد کو بھی جو شروع سے لے کر انتھا تک برآمد ہوئے ان میں سے کچھ مؤرخین ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسلام سے پہلے کی قوموں اور حکومتوں کے عام واقعات بھی قلم بند فرمائے ہیں۔ جیسے مسعودی اور مسعودی کی طرز پر چلنے والے مؤرخین۔پھر ان کے بعد وہ آۓ جو اطلاق کی وسعت ہٹ کر۔  تنقید کی تنگ کوٹھڑی میں گھس آئے اور انہوں نے عام حالات کے گھیرنے کے لیے بھی لمبی ڈینگیں نہیں ماریں بلکہ اپنے زمانے کے وہی واقعات تحریر کۓ جو دماغوں سے مٹ جانے والے تھے اور ممالک ہی کے حالات تفصیل سے تحریر کۓ اور اپنے ہی شہروں اور حکومتوں کی تواریخ پر بھروسہ کیا جیسے ابو حیان جو اندلس کا اور اندلس میں بنی امیہ کی حکومت کا تاریخ دان ہے اور ابن رفیق جو افریقہ کا اور حکومت قیروان کا تاریخ دان ہے۔ پھر ان کے بعد ہر مؤرخ مقلد ہی پیدا ہوا جسکی عقل و طبعیت ناقص تھی یا ناقص بنا لی گئی تھی اور اسی

کرگھے پر جو پہلے مؤرخین نے گاڑا تھا تانتا رہا۔  اور انہی کے مقررہ کردہ راستہ پر چلتا رہا اور زمانے کے بدلے ہوئے حالات سے بلکل بے خبر رہا اور اس سے بھی کہ لوگوں اور قوموں کے اخلاق و عادات میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوگیا۔  اسی قسم کے مؤرخین حکومتوں کے حالات اور پہلے زمانے کے واقعات اس طرح نقل کرتے ہیں کہ وہ مواد سے خالی ہوتے ہیں گویا میانوں سے تلواریں الگ کرلی گئی ہیں اور میان غائب ہیں

یعنی انکے بیانات نا قابل تسلی ہوتے ہیں اور ان کے جمع کۓ ہوۓ نۓ اور پرانے معارف جہالت کی وجہ سے ماننے کے قابل نہیں ہوتے     انہوں نے صرف واقعات لکھ دیۓ اور ان کے اصول جاننے کی کوشش نہی کی۔ اور ایسے انواع تحریر کردیۓ جنکی جنسوں سے وہ ناواقف رہے اور نہ وہ انکی فصلوں میں تمیز  کرسکے۔ یہ واقعات و حوادثات کو انکے موضوعات میں باربار دہراتے ہیں اور پہلوں کی لکیر کے فقیر ہیں اور لوگوں کے تبدیل شدہ حالات سے نظر ہٹاۓ ہوے ہیں کہ زمانے نے نئ ضرورتوں کے پیش نظر ان میں کیا کیا انقلابات پیدا کردیۓ ہیں۔ کیونکہ انکا جاننا انکے لیے مشکل ہوتا ہے لہذا انکی کتابیں انکے بیانات سے خالی نظر آتی ہیں اسکے علاوہ جب یہ لوگ کسی حکومت کا حال بیان کرتے ھیں تو وہم یا صدق کی بناء پر بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور صحیح صحیح نقل کرتے ہیں نہ انہیں انکی ابتداء سے غرض ہے اور نہ اسکے سبب و علت سے جس نے انکا علم بلند کیا اور اسکی علامت ممتاز کی۔  اور نہ اسکے زوال کی وجہ بیان کرنے سے کوئ غرض ہے۔  قارئین انکی کتابیں پڑہ کر حکومتوں کے مبادی و مراتب تلاش کرتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اسباب مزاحمت و تعاقب معلوم کرنے کے لیے حیران و سرگردان پھرتے رہتے ہیں۔ اور ایسا سبب ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں جو حکومت کے تباین یا تناسب کا پتہ لگانے میں مددگار ہو  

Post a Comment

0 Comments