حکومتوں کے ٹیکس بڑھانے کی وجہ

ٹیکس بڑھانے کے اسباب


    ملکی و افسر شاہی۔ بڑہتی ہوئی ضرورتیں ہیں جو زیادہ سے زیادہ آمدنی کا تقاضا کرتیں ہیں کیونکہ سرکار اور سرکاری.   آفسروں میں تعیش پیدا ہوجاتا ہے اور انکا ہر گوشہ زندگی۔ آرام و آسائش کو چاہتا ہے اس لیے انکے اخراجات بہت زیادہ       بڑھ.   جاتے ہیں اور اونچے پیمانے کے ہوجاتے ہیں اور موجودہ آمدنی انکے اخراجات کو پورا کرنے سے عاجز آجاتی ہے     اس لیے حکومت ایسی ترکیبیں نکالتی ہے جن سےٹیکسس بڑھ جائیں تاکہ آمدن اور اخراجات میں برابری قائم ہوجاۓ پھر                   جوں جوں آرام بڑھتا جاتا خرچ میں اضافہ ہوتا جاتا اور پیسے کی سخت ضرورت پیش آتی رہتی ہے اس لیے ٹیکس     کی. شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جس سے حکومت کا دائرہ دن بدن تنگ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن حکومت کا  دائرہ                              بالکل سمٹ کر ختم ہو جاتا ہے پھر دشمن اسے آسانی سے ھڑپ کر جاتے ہیں.    

مالی کرپشن کی وجہ اور اسکے نقصانات

  حکومت میں جو گڑبڑ مال کی وجہ سے آتی ہے اسکی تفصیل یے ہیکہ کوئ بھی حکومت شروع شروع میں سادگی پسند     ہوتی. ے اس لیے وہ عوام سے محبت و نرمی سے پیش آتی ہے اخراجات میں کفایت پیش نظر رکھتی ہے اور لوگوں کے مال   پر للچائی ہوئی نظر نہی ڈالتی اس لیے شرح ٹیکس بڑھانے سے پرہیز کرتی ہے اور مال جمع کرنے کے لیے چالاکیوں اور     عیاری سے کام نہی لیتی اور نہ متعلقہ حکام سے زیادہ پوچہ پاچہ کرتی ہے ان حالات میں اخراجات میں فضول خرچی کا سوال   ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے حکومت کو زیادہ مال کی ضرورت نہیں پڑتی پھر جب اقتدار حاصل ہوکر زور پکڑجاتا ہے اور            حکومت مضبوط ہو جاتی ہے اور حکومت کی وسعت و طاقت اپنے ساتھ عیاشی لاتی ہے اور عیاشی سے اخراجات بڑھتے یں  تو نہ صرف حکومت بلکہ سرکاری اداروں اور آفسروں کے اخراجات بھی دگنے چگنے ہوجاتے ہیں بلکہ عام سرکاری ملازمین کو بھی ضروت محسوس ہوتی ہے کہ انکی بھی تنخواہیں بڑھائیں جائیں پھر تکلفات و عیاشی میں اور زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور لوگ اپنے اخراجات بغیر کسی وجہ کے بڑھالیتے ہیں اور یے باتیں عام عوام میں بھی پھیل جاتی ہیں کیونکہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اب حکومت کو بازاروں کے تجارتی مالوں پر ٹیکس لگانے کا خیال پیدا ہوتا ہے

تاکہ آمدن میں اضافہ ہو کیونکہ حکومت شہروں میں عیاشی اور خوشحالی دیکھتی ہے اور خود بھی پیسے پیسے کا اپنی ذاتی اخراجات اور فوجی اخراجات کی وجہ سے ضروت مند ہے پھر مختلف اسباب اور تکلفات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ٹیکس ملکی ضروریات کو کافی نہیں ہوتیں اور حکومت کا دامن وسیع ہوچکا ہے اور قہر و تسلط بھی خوب جما ہوا ہیے چنانچہ حکومت کے ہاتھ عوام کے مالوں کی طرف بڑھتے ہیں چاہے مال چنگی سے ہو یا پھر تجارت سے اور بعض حالات میں تو بغیر کسی معقول وجہ کے مال چھین لیا جاتا ہے ان حالات میں خود فوج حکومت پر حاوی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ حکومت میں کمزوری دیکھ لیتی ہے اور حکومت فوج کو تسلی دینے کے لیے انکے بجٹ میں اضافہ کرتی ہے اور جنرلوں کی مدت ڈیوٹی میں توسیع کردیتی ہے کیونکہ اسکے علاوہ فوج کو دبا کر رکھنے کی کوئی اور صورت نہی ان حالات میں سرکاری افسران اور سیاسی mna &MPA اور چیئرمین وغیرہ کی دولت و ثروت خوب بڑہتی ہے کیونکہ ٹیکس کی کثرت اور اسکی وصولی اور حساب کتاب انہی کے ہاتھوں میں ہے اور لوگ ان کے ڈر کی وجہ سے انکے آگے بول نہی پاتے چنانچہ یے لوگ سرکاری فنڈز میں کرپشن کر کے بہت سا مال جمع کر لیتے ہیں اور آپس میں کبہی حسد کی وجہ سے ایک دوسرے کا پول کھول دیتے ہیں اس لیے

انتخابات کے بعد نئ حکومت کو جب خزانہ خالی ملتا ہے تو سرکاری عتاب پچھلے مخالف پالٹی کے تمام ممبران پر نازل ہوتا ہے وہ بھی اگر انکی آپس میں نا بنتی ہو تو اور یکے بعد دیگرے ہر ایک کا نقدی مال چھین لیا جاتا ہے اور جائداد ضبط کر لی جاتی ہے حتیٰ کہ انکی یے دولت ختم ہو جاتی ہے اور اقتصادی حالت نازک ہو جاتی ہے پھر انکے بعد حکومت کی نظریں ملک کے دوسرے مالداروں پر پڑتی ہے اور انسے بھی کسی نہ کسی بہانے سے مال لے لیا جاتا ہے اس طرح ملکی پیداوار میں کمزوری آنا شروع ہو جاتی ہے

Post a Comment

0 Comments