ایک مضبوط حکومت کا قیام کیوں ضروری
دیکھو ایک وطن جو حقیقی طور پر تمہارا ہو تو
تمہار ے لیے ماں اور باپ کا سایہ دونوں ہوگا جیسے ماں کی گود تمہیں سردی
اور گرمی سے بچاتی ہے اور باپ کا ہاتہ تمہیں دشمنوں اور بھوک اور دوسری
چیزوں سے تمہاری حفاظت کرتا ہے ویسے ہی ہمارا حقیقی وطن ہمیں دشمنوں کی
چالوں سے سردی گرمی کی حرارت سے بچاتا ہے اب جب کہ ہمارے پاس پہلے سے
ہی ایک وطن موجود ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا ہے وہ دراصل ہمارے
دشمنوں
کا ہے کیوں کہ ایک حقیقی وطن تمہیں آزادی دیتا ہے اور تمہارے روایات اور قانون
کی پاسداری سکھاتا ہے جس سے تمہیں اپنے مشکل دنوں میں ایک طرح کا سکون
فراہم کرتا ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں کیونکہ یہاں روزانہ ہمارے قانون کی دھجیاں
اڑائ جاتی ہے جس سے ہمارے دل زخمی ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے یہاں ہر ایک
سمجھتا ہے کہ وہ اپنے اصلی آزاد وطن میں رہتا ہے جبکہ واطراف کے حالات سے
نظر پھیر لیتا ہے
جب ہم ایک مضبوط حکومت کے قیام کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری
ہے یہ جاننا کہ وہ کن چیزوں سے وجود میں آئے گی
اگر حکومت بنانے کے اسباب مضبوط ہوں گے تو حکومت بھی مضبوط بنے گی ذرا
دیکھو یہ دنیا ہے کیچڑ اور گندگی سے بھری ہوئی ہے ایک عمدہ اور مضبوط
حکومت جو ہمیں چاہیے وہ کسی معجزہ اور کرشمہ سے وجود میں آنے والی بالکل
نہیں ہے اس کے لیے ہماری جدوجہد اور مضبوط عزم کا ہونا ضروری ہے اور یہ
حکومت اچانک سے وجود میں آنے والی بالکل نہیں ہے اس کے لئے ہمیں مستقل
عظیم ولولہ اور لگاتار کوشش کرنی ہوگی جتنی زیادہ کوشش اور لگاتار مسلسل
جدوجہد ہوگی اتنی ہی پائیدار ہماری حکومت ہوگی اور مت بھولو یہ صرف اللہ کے
لئے ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی اغراض اور دنیاوی شہرت کے لئے
جتنا ہم خالصتا اللہ کی راہ میں لگاتار کوشش کریں گے اتنے ہی اللہ ہمیں اس میں
کامیاب فرمائیں گے
اس بارے میں کسی مشہور آدمی کا اپنے بیٹے کو بہترین نصیحت کرنا جب ایک چھوٹا سا بچہ
اپنے باپ سے سوال کرتا ہے ان حالات کے بارے میں
جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے
ابا جان ہم چمڑے اور کپڑے کے بنے ہوئے خیموں میں ہم رہتے تھے اب ہم ایک
پتھر کے مضبوط قلعہ میں رہتے ہیں ہم اتنے طاقتور کیسے ہو گئے
تو سنو بیٹے جیسے چھوٹے چھوٹے انگارے مل کر ایک بڑی آگ بن جاتے ہیں
ایسے ہی ہم چھوٹے چھوٹے قبیلوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اب مل کر ہم
ایک مضبوط قوم بن گئے ہیں
تو جیسے چھوٹے چھوٹے انگارے ذرا سی ہوا کے جھونکے سے سے بجھ جاتے
ہیں اور ان کا نام و نشان ختم ہو جاتا ہے اور ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جاتا
ہے ویسے ہی چھوٹے چھوٹے فرقے اور قبیلے تھوڑے سے دشمن کے حملے
سے ختم ہوجاتے ہیں اور ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے
ایک بڑی آگ ایک بڑے طوفان کے لیے کافی ہے تو ایک بڑی قوم ایک بڑے دشمن کے لیے بھی کافی ہے
بیٹا باپ سے دوبارہ پوچھتا ہےکہ
جب میں بڑا ہوجاں گا تو مجھے بھی بڑی بڑی مشکلیں پیش آئیں گی تو مجھے کیا کرنا ہوگا
بیٹا اگر تم اللہ اللہ نہیں کرتے یعنی اللہ سے مدد نہیں مانگتے تو جو مرضی کر لو
اس کا انجام صحیح نہیں ہوگا اللہ فرماتا ہے اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو
مضبوطی سے تھام لو یعنی سب مل کر متحد ہو جاؤ
بیٹا اگر ایک دن تم کسی گہرے کنویں میں گر جاؤ تو تمہیں باہر نکالا جا سکتا ہے اس سے
لیکن بیٹا اگر تم اللہ کا راستہ اختیار کرتے ہو تو وہ کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑے
گا تمہارے دوست اور تمہارے لوگ تمہارے اردگرد ہوں گے اگر تم مقدس راہ سے
منہ نہیں موڑتے اور اللہ کے نیک بندے تمہارے ساتھ اس راہ میں شامل ہوجائیں گے
بیٹا باپ سے پھر سوال کرتا ہے
ابا جان اللہ کے نیک بندے میں کیسے ڈھونڈوں گا
سنو بچے اگر آپ سیدھے راستہ سے نہیں پہرتے تو وہ خود تمہیں ڈھونڈ لیں گے
1 Comments
nice and butyfull mukalma
ReplyDeletemessags