ا سلامی اقتصادی نظام
دراصل اسلام کا ایک مکمّل اقتصادی نظام ہے،
جس کی بنیاد قرآن، حدیث اور
فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری
نظام، اشتراکیت اور اشتمالیت
سے الگ ایک مکمّل اقتصادی نظام ہے۔
اس نظام میں باقی نظاموں کی طرح کوئی خامی نہیں۔ ان کی
بنیادی ستونوں میں
1) سود کی ممانعت 2) زکوٰۃ 3) طلائی
(پیسہ) 4) وادیعہ (بینک کامتبادل مخزن کا ادارہ
) 5) قمار، غرر وغیرہ کی ممانعت 6) آزاد بازار
(سوق) وغیرہ شامل ہیں۔
اشتراکیت وغیرہ سے
یکسر مختلف ہے۔ اسلامی معاشی نظام کو مختصراَ `
یوں بیان کیا جا سکتا ہیں کہ اس نظام کا ‘‘دِل’’تجارت ہے۔
لہٰذا اسلامی اقتصادی نظام میں ‘‘زر’’یعنی پیسہ حقیقی دولت پر
چاول وغیرہ۔ یہ سود، قمار، غرر سے پاک ہوتیں ہیں۔
یہ آزاد بازاروں پر مبنی ہوتی ہے جہاں پر
ہر شخص اپنی تجارتی
اشیاء کی فروخت کر سکتا ہے۔
جہاں تھوک فروشی تک ہر شخص کی یکساں رسائی ہوتی ہے۔
ہر چھوٹا کاری گر و صنعت کار اپنا کارخانہ خود بنا سکے گا۔
ان اوقاف میں شرکت،مضاربت، مرابحہ وغیرہ کے طریقوں
سے تجارت ہوتی ہے وادیعہ (بینک کامتبادل)
کے ذریعے حکومت سرکاری ملازمین
کی تنخواہیں ان کی حسابوں
منتقل کرے گی اور وہاں ان کی دولت امانت کے
طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔ ‘‘شرعی زر’’کا معیار
حکومت مہیا کرتی ہے۔ ملکی خزانہ
بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔
ان سب اداروں کی نگرانی حسبۃ کرتی ہے۔
غریب عوام سے کوئی
محصول وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت
امیروں سے محصول (Tax)، زکوٰۃ، عُشر، خراج،
جزیہ وغیرہ کی صورت میں لے کر
غریبوں میں بانٹے گی۔
اسلامی اقتصادی نظام میں نجکاری کو محدود کیا جاتا ہے
اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔
دریاؤں، ڈیموں، نہروں، تیل، گیس، کوئلے، بجلی، جنگلات،
چراگاہوں وغیرہ کی نجکاری نہیں کی جا سکتیں۔
روٹی، کپڑا، مکان اور پانی کی حکو مت کی جانب سے
مفت فراہمی کی جائے گی۔ بیمہ کمپنیوں پر مکمل
پابندی لگائی جائے گی۔ لہٰذا سونے کے دینار اور چاندی
کے درہم موجودہ کاغذی نوٹوں کی جگہ لے گی۔
وادیعہ کے مراکز قائم کرنے سے بینکوں کا
کام ختم ہو جائے گا۔
اوقاف کی بحالی سے بازاروں، تھوک فروشی اور
صنعتی مراکز کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
بین الاقوامی تجارت کے لیے مال کے بدلے مال کا طریقہ
استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں کہی یہ طریقہ ممکن نہ ہو
تو وہ وہاں پرسونے کو بطور زر استعمال کیا جائے گا۔
‘
‘شرعی زر’’کو بنانے کے لیے حکومت ضرب خانے
(ٹکسال) بناتی ہے اور ملکی خزانہ
بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔
جس سے مرکزی بینک کا خاتمہ ہو جائے گا اور نفع کمانے
کے لیے لوگ اوقاف کا رُخ کریں گے جہاں حقیقی معنوں میں
تجارت اور کاروبار ہوگی۔ لہٰذا بازار حصص
(Stock Exchange)
کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔
اور شرعی زر کے دوسرے ممالک کی کرنسیوں سے
باہم مبادلے کے لیے وکالہ کے آزاد مراکز
قائم کیے جائے نگے۔
لہٰذا اجارہ داری پرمبنی صرافہ بازاروں
(Foreign Exchange Markets) کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اور ملکی بجٹ ملکی آمدنی کودیکھ کر بنایا جائے گا۔
جس کی وجہ سے قومی اور گردشی قرضوں
کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اور نہ ہی ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ
(بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)
کے قرضوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلم ممالک کے
مابین آزاد تجارت ہو گی اور ان ممالک کے اموال تجارت پر
کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا جو مسلمان ممالک کے
بین الاقوامی تجارت میں انتہائی اضافہ ہو جائے گا۔
لہٰذا اسلامی معاشی نظام کی مکمل بحالی سے ہمارے سارے
کام بطریق اَحسن انجام پائیں گے اور ہمیں
مغربی نظام سے کوئی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
0 Comments
messags