اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
- ” تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے ليے لباس ہو اور وہ تمہارے ليے لباس ہیں۔ “
اور قرآن نے یہ بھی کہا ہے مرد عورتوں پر حاکم ہے
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نہایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انہیں ایک دوسرے کے ليے ناگزیر بتاتے ہوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وہی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
- ” عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمہارا عورتوں پر حق ہے
- اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ “
یہاں بھی عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نہیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں۔ کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناءپر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی ليے قران نے مرد کو عورت پر نگران اور ”قوامیت “ کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری جانب اسلام نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتا یا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
پردہ اقبال کے تصور میں
اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقع ہر گز نہیں ہے اسی برقع کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔
بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے
بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پ رہی ز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں :
- ” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔ “
یہی وجہ ہے کہ اقبال، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت، نمائش، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔ ”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
( 3 )
0 Comments
messags