ذخیرہ اندوزی ہوئی کیسے ؟
صوبہ پنجاب کے محکمہ زراعت کے ایکسٹینشن کے شعبے کے ڈائریکٹر
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت نے بتایا کہ ڈیلرز کی سطح پر جو کھاد
غائب ہوتی ہے اس میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
’ہم نے ایک صورتحال ایسی بھی دیکھی جس میں کمپنی کی طرف سے
مقرر کردہ ڈیلر سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق یوریا کی سپلائی میں کمی کی ایک بڑی وجہ
ذخیرہ اندوزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمے نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف
آپریشن شروع کیا تھا تاہم اس کے باوجود تمام ذخیرہ اندوزوں
تک پہنچنا مشکل کام ہوتا ہے۔
’وہ ایسی جگہوں پر کھاد کو چھپاتے ہیں جہاں ان تک پہنچنا
مشکل ہو جاتا ہے۔
کبھی تو خاندان کے افراد اور خواتین کو بٹھا دیتے ہیں وہاں
اور پھر ہمارے عملے کے لیے چادر اور چار دیواری
کا خیال کرنا پڑتا ہے۔‘
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت کے مطابق بحران کی وجہ حکومت کا
بڑے پیمانے پر ایکشن بھی تھا۔ جب بحران کا آغاز ہوا تو حکومت
نے ڈیلرز اور افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے شروع کیے
جو مہنگے داموں یوریا فروخت کر رہے تھے۔
’اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ یوریا منظر سے بالکل غائب ہو گئی۔
ڈیلرز اور ٹریڈرز نے اسے چھپا لیا۔‘
تو کیا حکومت یوریا درآمد کر سکتی ہے؟
حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ یوریا کے بحران کو حل کرنے کے لیے
وہ کھاد بڑی مقدار میں باہر سے درآمد بھی نہیں کر سکتی تھی
کیونکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت پاکستان میں ملنے والی یوریا
کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت کے مطابق باہر سے ملنے والے یوریا
کے بیگ کی قیمت دس ہزار پاکستانی روپے سے زیادہ تھی۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں چین سے سستے داموں پر
یوریا منگوانے کی کوشش کی ہے تاہم ڈاکڑ شیر محمد کے مطابق
حکومت ایک حد تک ہی سبسڈی دے سکتی ہے۔
اگر وہ بہت زیادہ قیمت پر یوریا درآمد کرے گی تو سبسڈی دینے
کے بعد وہ بھی کسان کو اس قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر دستیاب
ہو گی جس میں وہ مقامی طور پر تیار ہونے والی یوریا خریدتا ہے۔
اس بحران سے پاکستان کو کتنا معاشی نقصان ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر شیر محمد سمجھتے ہیں کہ ان کا محکمہ کسانوں کو یوریا
کے علاوہ دیگر متبادل کھادوں کے استعمال کے حوالے سے
بھی آگاہی دیتا رہتا ہے تاہم اس میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ
روایتی کسان جو کھاد ایک مرتبہ استعمال کر لیتا ہے
وہ باآسانی اس کو چھوڑتا نہیں۔
ان کے خیال میں یوریا کی حالیہ کمی کی وجہ سے بھی گندم کی فصل
کو زیادہ نقصان نہیں ہو گا کیونکہ زیادہ تر کسانوں نے یوریا مہنگے
داموں پر خرید کر ایک مرتبہ گندم کو دے دی تھی۔
اس کے علاوہ بارشیں بھی وقتی اور کافی ہو چکی تھیں۔
دوسری طرف
سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ
سمجھتے ہیں کہ اس بحران سے نہ صرف گندم کی فصل میں
پاکستان کو کئی ملین ٹن کی گندم کی کمی کا سامنا ہو گا
بلکہ خریف کی فصلوں میں بھی نقصان کا خدشہ ہے۔
’اس طرح پاکستان میں خوراک کی کمی کا بحران بھی
پیدا ہو سکتا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو
زیادہ خوراک درآمد کرنا پڑے گی۔‘
اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اگر خریف کی فصلوں کو بھی
ایسے ہی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو ماہرین کے مطابق پاکستان
کی زرعی اجناس کی برآمدات میں بھی کمی آئے گی
اور حکومت کو زیادہ زرِمبادلہ خوراک کی کمی کو پورا
کرنے پر خرچ کرنا پڑے گا۔
0 Comments
messags