بلاک چین




بلاک چین یا منقسم کھاتہ ایک ایسا ڈسٹری بیوٹر لیجر ہے جو ہونے والی ٹرانزیکشنز کا وقت کے حساب سے 

(Chronologically)

 مکمل حساب رکھتا ہے۔ نیٹ ورک میں شامل ہر فرد کے پاس اِس کی مکمل کاپی ہوتی ہے۔ جب کوئی تبدیلی آتی ہے یا کوئی ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو تمام لوگ اپنے اپنے کھاتوں کو اَپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی جعلی ٹرانزیکشن کو ریکارڈ کروانے کی بات کرے گا تو باقی لوگ اُسے مسترد کر دیں گے کہ اُن کے پاس کاپی میں اس ٹرانزیکشن کا وجود نہیں ہوگا

 سال دوہزار آٹھ میں بٹ کوائن لانچ ہوا اور چند سال کے عرصے میں ہی شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا. ساتوشی ناکاموتو بٹ کوائن کے تخلیق کار ہیں، اب یہ کوئی شخص ہیں یا گروہ اس بات کا سراغ آج تک نہیں مل سکا ہے.

بٹ کوائن کے آنے سے لفظ کرپٹو کرنسی

کو بہت اہمیت حاصل ہوئی، ہر فرد کی زبان 

پر اسی کوائن کا چرچہ ہے. جو فرد بھی

 بٹ کوائن سے متعارف ہوا  اسکی خرید

 و فروخت کرنے کا خواہشمند رہا. اسے

 ڈیجٹل گولڈ کے خطاب سے بھی نوازا گیا. .

عموماً لوگ جو بٹ کوائن سے تو واقف ہیں

 لیکن اس بات سے اکثر ناآشنا نظر آتے ہیں 

کہ آخر اسکی کامیابی کا راز کیا ہے؟ 

جس کرنسی کے تخلیق کار کا نام تک ٹھیک سے نہیں پتہ اس پر خریداروں نے اتنا

 بھروسہ کیسے کرلیا؟

دراصل بٹ کوائن کی شہرت اور کامیابی 

کا راز "بلاک چین" نامی ٹیکنالوجی ہے. 

ساتوشی ناکاموتو نے بٹ کوائن کو 

بلاک چین کی ٹیکنالوجی پر ڈیزائن کیا ہے

. یوں تو یہ نام کئی سالوں سے خبروں میں

 آتا رہا ہے لیکن اسے بھر پور توجہ 

بٹ کوائن سے ہی حاصل ہوئی ہے.

بٹ کوائن کی خاصیت اسکی استحکامت،

 تحفظ و بھروسہ اور توسیع پذیری ہے

 جو اسے بلاک چین کی بدولت موصول

 ہوئی ہے. اس ٹیکنالوجی کی خاصیت ہے

 کہ یہ صرف کرپٹو کرنسی کے گرد چکر

 نہیں لگاتی بلکہ یہ اس سے بھی کئی گنا 

بڑھ کر حیران کن ٹیکنالوجی ہے، بلاک چین

 کئی کمپیوٹر سائنسدانوں اور ریاضی دانوں

 کی یکساں کوششوں کا نتیجہ ہے ۔



بلاک چین کیا ہے اور یہ کیسے اور

 کس طرح سے کام کرتی ہے؟

 اسے انقلابی کیوں تصور کیا جارہا ہے؟

رواں سال میں گوگل پر کثرت سے سرچ کیا جانے والا لفظ "بلاک چین" ہے، جو شخص کرپٹو سے کچھ حد تک واقفیت رکھتا ہے اس کے ذہن میں سب سے پہلا سوال اس نئی شہرت یافتہ 

ٹیکنالوجی کے متعلق آتا ہے.

اگر آسان الفاظ میں کہا جائے  تو بلاک چین ایک پبلک رجسٹر(کھاتہ) ہے جس میں لوگوں کے درمیان ہونے والی لین دین(ٹرانزیکشنز) کا مکمل ریکارڈ اور حساب کتاب محفوظ طریقے سے مستقل طور پر جمع ہوتا رہتا ہے، لین دین سے متعلق تمام تر ڈیٹا کرپٹو گرافک بلاکوں میں ریکارڈ ہوجاتا ہے اور یہ بلاک درجہ وار طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے جاتے ہیں اور یوں بلاکوں کی

 ایک چین بننا شروع ہوجاتی ہے.

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس میں نیا کیا ہے؟ بینک بھی ہمیں یہی سروس مہیا کرتا ہے تو بلاک چین کی کیا ضرورت؟ دراصل جو جزو اسے بینک کے نظام سے مختلف بناتا ہے وہ اسکا ڈی-سینٹرلائیزڈ ہونا ہے،

 یعنی اقتدارِ مرکزیت کا ختم ہونا.

 ڈی-سینٹرلائیزڈ والے جزو کو آسان الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حالیہ دور میں ہم پیسوں کے لین دین کے معاملات میں فراڈ سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ بھروسہ تھرڈ پارٹی یعنی بینکوں پر کرتے ہیں اور ملک کے کسی بھی کونے میں پیسوں کے ٹرانسفر کے حوالے سے بینک کے مرہونِ منت ہیں، ٹرانسفر اگر بیرونِ ملک کرنا ہو پھر  تو کئی دن کا وقت لگ جاتا ہے کاغذی کارروائی کو انجام دینے میں، مزید یہ کہ بینک ان کاغذی کارروائی کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے نہیں رہتے، اس دوران ہر کارروائی کے الگ چارجز بھی دینے پڑتے ہیں.

 یہ تمام تر طریقہ کار اکتا دینے والا ہوتا ہے، بینک اس میں تھرڈ پارٹی کا کردار ادا کرتا ہے. بلاک چین کی بدولت ہم جب چاہیں ملک یا دنیا کے کسی بھی حصے میں نہایت کم وقت اور چارجز میں پیسے ٹرانسفر کر سکتے ہیں، کاغذی کارروائی بذریعہ بلاک چین بھی ہوتی ہے لیکن ڈیجیٹل طریقے سے بنا کسی پریشانی کے ٹرانسفر کے دوران بلاکز میں جمع ہوتی رہتی ہے. اس عمل کے یوں بنا کسی پریشانی، از حد وقت اور بیش قیمت ٹیکس کے بغیر جاری ہونے کی وجہ اس میں سے تھرڈ پارٹی کا خارج ہوجانا ہے. مطلب یہی کہ پیسوں کی منتقلی کے لیے آپ کو بینک کا

 مرہونِ منت نہیں رہنا پڑے گا۔

بلاک چین چونکہ اقتدارِ مرکزیت کو سپورٹ نہیں کرتا اس میں موجود ڈیٹا کسی ایک خاص کمپیوٹر پر پراسس نہیں کر رہا ہوتا، شیئر ہونے والی تمام انفارمیشن پبلک ہے جو بیک وقت کئی سارے کمپیوٹرز پر دیکھی جا سکتی ہے. ایسے میں کسی ہیکر کے لیے اتنے سارے کمپیوٹرز کے سسٹم کو ہیک کرنا ممکن نہیں ہے، بلاک چین کو اسی بناء

 پر محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔

بلاک چین ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جسکا عملی سفر حال ہی میں شروع ہوا ہے، کمپیوٹر سائنسدان ہر ممکنہ طور پر اسکے عملی ماڈلز بنانے کے لیے کوشاں ہیں. گزرتے وقت کے ساتھ اس میں مزید ممکنات اور بہتری کا اضافہ ہورہا ہے. موجودہ تھیوری کو عملی جامع پہنانے اور تکنیکی غلطیوں پر غالب آنے کی تگ و دو جاری ہے. فائننس اور انشورنس کے شعبوں میں اس ٹیکنا لوجی کو اپلائی کیا جارہا ہے لیکن اس کا استعمال باقی کئی انڈسٹریز میں کیا جا سکتا ہے جس پر سائنسدان بخوبی غور فرما رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments