کرکٹ کیریئر کے دوران میں عمران خان کو
کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش کی گئی۔ 1987ء میں
صدرپاکستان محمد ضیاء الحق نے انہیں مسلم لیگ میں
سیاسی عہدے کی پیش کش کی جسے انہوں نے انکار کر دیا۔
نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے
کے لیے مدعو کیا تھا۔ ضیاء الحق کے ساتھ
عمران خان کے اچھے تعلقات تھے، انہوں نے کرکٹ
چھوڑ دی تھی لیکن جنرل ضیاء ان کو دوبارہ کرکٹ میں
واپس لے کر آئے 1992ء کا ورلڈ کپ بھی جنرل ضیاءکے
کہنے پر کھیلا۔1994ء کے آخر میں انہوں نے انٹیلی اجنسی (آئی ایس آئی)
کے سابق سربراہ حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان نامی
گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور اسی سےانہوں نے سیاست میں
باقاعدہ شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی۔25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف
قائم کر کے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔
لیکن حالیہ دنوں میں وہ اپنی جدوجہد اور اصول پرستی کی بدولت پاکستانی عوام،
خصوصاً نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی
سیاسی جماعت کو پاکستان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 32، ایوان بالا میں 7،
صوبائی اسمبلی سندھ میں 4، صوبائی سمبلی پنجاب میں 30 اور صوبائی اسمبلی
خیبر پختونخوا میں 59 نشستیں حاصل ہیں۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف
کے نعرے کرپشن اور سیاسی مافیا کا خاتمےٗ کی وجہ
سے مشرف کی فوجی آمریت کی حمایت کی۔
عمران خان کے مطابق مشرف انہیں 2002ء میں وزیر اعظم بننے
کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 2002ء کے ریفرنڈم میں
عمران خان نے فوجی آمر کے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ تمام بڑی
جماعتوں نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی
سخت مخالفت کی 2002ء میں عام انتخابات میں وہ میانوالی کی سیٹ سے
قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔
انہوں نےقومی اسمبلی کی کشمیر اور پبلک اکاؤنٹس
کمیٹیوں میں بھی خدمات سر انجام دیں ہیں۔2 اکتوبر، 2007 کو جنرل مشرف
نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفٰی دیے بغیر صدارتی انتخابات
لڑنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے خلاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک
موومنٹ کے پلیٹ فارم سے دیگر 85 اسمبلی ارکان کے ساتھ مل کر
عمران خان نے تحریک چلائی۔ 3 نومبر، 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے
ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد آپ کو نظربند کرنے کی کوشش کی گئی۔
تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ 14 نومبر کو پنجاب یونیورسٹی میں
ہنگامی حالت کے خلاف طلبہ احتجاج کے دوران میں عمران خان عوامی حلقوں میں نظر آئے۔
اس ریلی کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان کو زد و کوب کیا۔
اس احتجاج کے بعد ان کو گرفتار کر کے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھجوا دیا گیا
جہاں یہ چند دن قید رہے۔ انتظامیہ کے مطابق ان پر "دہشت گردی"
قانون کے تحت مقدمہ بنایا جائے گا۔دنیا بھر کی اخبارات نے عمران کی
فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کو سراہا ہے۔
لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف سے وزارت عظمی
کا منصب طلب کر رہے تھے اور جب اُنہیں انکار کر دیا گیا
تو وہ پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے۔ 18 نومبر کو عمران خان ن
ے ڈیرہ غازی خان جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی۔ 22 نومبر کو اچانک رہا کر دیا گیا۔
0 Comments
messags