The dream of a single nation
تم جاننا چاہو تو۔
یے خواب اب وجود میں آنے کو بے چین ہے
بہت جلد یے آوازیں سننے کو
ملیں گی کہ ہم ایک امت واحدہ ہیں جیسا کہ
پیغبرعلیہ السلام کا ارشاد ہے
تماممسلم ایک امت ہیں بغیر کسی ملکی و
قومی حدود کے اور ایک امت بننا وقت کی
ضرورت ہیے
کیونکہ ہر عروج کو زوال ہے اور
زوال کے بعد عروج ہے
جیسے سورج جب نکلتا ہے تو اس کی روشنی
آغاز میں اندھیرے کو
ایک دم ختم نہیں کرتی بلکہ آہستہ آہستہ
سورج اپنی جگہ سے بلند ہوتا ہے
اور اپنا نور تمام عالم پر پھیلانا شروع کرتا ہے
اور عین نصف نہار پر تمام عالم میں
ظلمت کا نشان تک نہیں رہتا لیکن جیسے
ظلمت کے بعد نور نکلتا ہے
اور تمام عالم پر پھیل جاتا ہے ایسے ہی نور کے ختم ہونے
پر
ظلمت آہستہ آہستہ پھیلیتی چلی جاتی ہے
لیکن نہ تو ظلمت ہمیشہ کے لئے ختم ہوتی ہے
اور نہ ہی نور ہمیشہ کیلئے
ختم ہوتا ہے بلکہ ایک کے ظاہر ہونے پر
دوسرا چھپ جاتا ہے
جیسے رات کے آنے سے دن چھپ جاتا ہے اور
دن کے آنے سے رات چھپ جاتی ہے
ایک خیال جو اکثر لوگوں کے دلوں میں
گھرا رہتا ہے کہ جیسے اندھیرے
کے بعد روشنی ہے اور روشنی جوکہ
اندھیرے کے ختم ہونے تک
انتظار کرتی ہے تو کیا ملت اسلامیہ کو
کفر کے اندھیرے کے ختم ہونے کا
انتظار نہی کرنا چاہیے کیوں کہ جب
اندھیرے کا ختم ہونا فطرتاً ضروری ہے
1
تو پھر خامخواہ ہمیں مزاحمت نہیں کرنی چاہیے
بلکہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے؟
رکو یہی تو وہ نقطہ ہے جو ہمیں سمجھنا ہوگا۔
کہاوت ہے کہ
جب بچہ روتا ہے تبھی ماں دودھ پلاتی ہے۔
خدا تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے
ترجمہ اللہ تعالی کسی قوم کی حالت درست نہیں کرتا
جب تک وہ قوم
خود اپنی حالت درست نہ کرنے لگے
یعنی مزاحمت ہی وہ اصل چیز ہے جو کفر کے
اندھیرے کو ختم کرنے
کا سبب بنتی ہے ورنہ تو کفر کا اندھیرا پھیلتا ہی چلا
جاۓ
پیغمبر علیہ السلام کا فرمان ہے
یعنی پیغمبر علیہ السلام کے فرمان کا مضمون ہے مختصر
ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
سے بات چیت کے دوران
پیغمبر نے فرمایا کہ سب کچھ لکھا جا چکا ہے
لوح و قلم میں۔
کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی وغیرہ وغیرہ
تو کسی صحابی نے پوچھا
پھر ہمیں عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے
کے جب فیصلہ ہو چکا ہ
ے کہ یہ جہنمی ہے اور وہ جنتی
تو پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا خبردار کہ
جیسے ہو ویسے ہی رہو
للہ تعالی جنتی کے لیے نیک کام آسان فرما تا ہے اور
جہنمی کو برے کام آسان لگتے ہیں یعنی جنتی
آدمی نیک کام کرے گا
اور جہنمی برے کام کرے گا
تہذیب کفر
کفار کی تہذیب یعنی وہ اعمال جو کافر کرتے ہیں
اس احساس سے کہ وہ
انسانیت کے اعلی مراتب میں سے ہیں اور جنہیں دیکھ کر
کچھ ایسے مسلمان جو اپنی
تہذیب سے ناواقف ہیں انہیں اچھا سمجھنےلگ جاتے ہیں
اس کی مثال یہ ہے جو قرآن پاک دیتا ہے
ترجمہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال ایسے ہیں
جیسے چمکتی ہوئی ریت کسی چٹیل میدان میں۔
پیاسا خیال کرتا ہے
اسے پانی جب پینے کے لئے اس کے قریب پہنچتا ہے تو
اسے وہاں کچھ نہیں ملتا اور وہ اپنے قریب خدا کو پاتا ہے
اور اللہ تعالی نے اس کا حساب چکتا کردیا
اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے
تہذیب کفار بہی ایک سراب کی طرح ہے
اور اس کی طرف جانے والا پیاسا
ہے
یعنی خود اس کے پاس اپنی کوئی تہذیب نہیں۔
یا کم از کم اپنے تہذیب سے
ناواقف ضرور ہے لیکن جانے والا جب جاتا ہے
اس کی طرف جب وہ اس کی
انتہا کو پہنچتا ہے تو اس کے آخر میں خدا کو پاتا ہے
یہی حال ان مغربی تہذیبوں کا ہے
ایک دن جب وہ سراب سے باہر آینگے
یعنی اس گندگی کی تہہ
تک پہنچیں گے تو ان کے پاس دو ہی راستے ہوں گے
یا وہ اس کے آخر میں خدا
کو پا لیں گے یعنی ہدایت کو اور مسلمان ہوجاینگے
یا پھر خدا ان کا حساب
چکتا کر دے گا یعنی ا نہیں نیست و نابود کر دےگا
0 Comments
messags